Header Ad

اقسام

سب سے زیادہ مقبول

سب سے زیادہ دیکھا گیا

پاکستان کی معیشت روبہ زوال لیکن عمران خان کے خیراتی ادارے مالا مال

احمد نورانی، عمارہ شاہ

جیسے جیسے پاکستان کی معیشت روبہ زوال ہوتی گئی، وزیرِاعظم عمران خان کے خیراتی اداروں کے عطیات میں برق رفتار اضافہ دیکھا گیا۔

وزیراعظم عمرا خان کے  اقتدار کے دوران ان  کے خیراتی اداروں کی آمدنی میں، ایک ایسی معیشت کا حصہ ہونے کے باوجود، جو تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے کہ جس میں دن بہ دن افراط زر بڑھتا جا رہا ہے اور مجموعی ملکی پیداوار کا تناسب  دو ہزار اٹھارہ کے پانچ اعشاریہ آٹھ سے گر کر ایک اعشاریہ دو پہ کھڑا ہے، بے پناہ اضافہ ہوتا رہا۔

نہ صرف یہ بلکہ عمران خان کے دو خیراتی اداروں نے ان کے وزیراعظم بننے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پہ امریکہ اور برطانیہ میں سالانہ گوشوارے جمع کرانا روک دیا ہے باوجود اس امر کے کہ قانونی طور پہ ان کا جمع کرنا ضروری ہے۔

نتیجتا عمران خان فاونڈیشن کو امریکی ٹیکس اداروں کی طرف سے ٹیکس استثنٰی کی جو سہولت میسر تھی، واپس لے لی گئی ہے۔

اطلاعات تک رسائی کے قوانین کے تحت، تین مختلف ممالک میں موجود خیراتی اداروں سے براہ راست اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو پاکستان سے حاصل کیئے گئے ڈیٹا اور دستاویزات کے بغور مشاہدہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خیراتی اداروں کی سالانہ آمدنی پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ میں دو ہزار تیرہ کی حکومت اور بعد میں دو ہزار اٹھارہ میں وفاقی حکومت بننے کے بعد دوگنا ہو گئی ہے۔

جیسے جیسے یہ خیراتی ادارے اپنی دولت میں اضافہ کرتے گئے، امریکہ، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ان کے نیٹورک میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

عمران خان کے دو خیراتی اداروں نمل کالج (نمل نالج سٹی) اور عمران خان فاونڈیشن نے برطانیہ اور امریکہ میں متعلقہ سرکاری اداروں میں سالانہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے بند کر دیئے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی ریوینیو اتھارٹی آئی آر ایس نے پندرہ مئی دو ہزار اکیس کو عمران خان فاونڈیشن کودی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی ہے۔

برطانوی چیئرٹیز کمیشن نے فیکٹ فوکس کو اس بات کی تحریرا تصدیق دی ہے، جبکہ امریکی آئی آر ایس کی ویب سائٹ عمران خان فاونڈیشن کی تنسیخ کی تصدیق کرتی ہے۔ عمران خان فاونڈیشن عمران خان کے خیراتی اداروں میں ایک بڑا نام ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو فنڈز دینے والوں کی فہرست کو کھنگالتے ہوئے فیکٹ فوکس کی تحقیق سے سنجیدہ نوعیت کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی مختلف انتخابی مہمات پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات دینے کے لئے اپنے ڈونرز کی فہرست فراہم کرے۔ اس فہرست میں سے عطیہ دینے والے کچھ حضرات سے جب اخبار دی نیوز کے تحقیقاتی صحافی فخر درانی نے رابطہ کیا تو انھوں نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ یہ پیسہ انھوں نے عمران خان کے خیراتی اداروں کو دیا تھا نہ کہ اس کی سیاسی جماعت کو۔

دنیائے کرکٹ کا شہرہ ہونے، خیراتی اداروں کی فنڈنگ کے لئے کرشماتی نعروں کے استعمال کرنے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیمی پس منظر کی وجہ سے پاکستان کی اشرافیہ ہمیشہ عمران خان کی گرویدہ رہی ہے۔ ن دوسری طرف عمران خان نے اپنی کرکٹ کی شہرت اور شخصیت کے مذہبی پہلو کی تشہیر کر کے عوام کے ساتھ اپنا تعلق بنائے رکھا۔ اسی لئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کا قیام بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ منصوبہ عمران خان کا پہلا اہم خیراتی منصوبہ تھا۔

سماجی خدمت کا شعبہ میں عمران خان اسی ادارے کے ذریعے سامنا آیا اور یہ تاثر بنانے میں بھی کامیاب رہا کہ وہ ایک ایماندار اور دیانت دار عوامی رہنما ہے۔ اور یوں اس کے سیاسی عزائم کو سامنے لانے کا راستہ ہموار ہوا جن کا مرکزی نکتہ صرف یہ تھا کہ تمام بڑے سیاست دان چور ہیں۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جوپاکستان کے دو شہروں پشاور اور لاہورمیں کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر چلاتا ہے، بیرونی ممالک سے دو ہزار گیارہ تک ایک ارب سے تین ارب کے عطیات وصول کرتا رہا ہے۔ یہ وہی سال ہے جب ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے کھل عام خان کی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئیے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ خیراتی اداروں کے عطیات میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ صرف شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے سال دو ہزار پندرہ میں آٹھ اعشاریہ نو ارب، سال دو ہزار سولہ میں آٹھ اعشاریہ تین ارب اور سال دو ہزار سترہ میں آٹھ اعشاریہ سات ارب روپے اکھٹے کیے۔

اگست دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے اور ان کی جماعت نے مرکز کے علاوہ ملک کے چار میں سے تین صوبوں میں حکومتیں بنائیں تو ایک مرتبہ پھراگلے تین سالوں کے عطیات میں دوگنا اضافہ ہو گیا۔ سال دو ہزار اٹھارہ میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے عطیات دس اعشاریہ چھ ارب روپے تک بڑھ گئے۔ سال دو ہزار انیس میں عطیات میں مزید تین اعشاریہ دو ارب روپے کا اضافہ ہوتا ہے اور دو ہزار بیس میں کل عطیات پندرہ اعشاریہ ایک تین ارب روپے کی خطیر رقم کو پہنچ جاتے ہیں ۔یہ اعداد دنیا بھر سے صرف شوکت خانم میموریل ترسٹ کے لیئے جمع ہونے والے عطیات کے ہیں۔

امریکہ سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے لیئے جمع ہونے والے عطیات دو ہزار اٹھارہ میں چھ اعشاریہ چار ملین ڈالر، دو ہزار انیس میں سات اعشاریہ نو ملین ڈالر ،اور دو ہزار بیس میں نو اعشاریہ تین ملین ڈالرز تک بڑھ گئے۔ جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے تو امریکہ سے عطیات کی مد میں دو ہزار گیارہ اور دو ہزار بارہ میں ایک اعشاریہ نو ملین ڈالرز موصول ہوئے جو کہ دو ہزار دس کے دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالرز سے کم ہو گئے تھے۔ سال دو ہزار چودہ میں عطیات اچانک بڑھ کر چار اعشاریہ آٹھ ملین ڈالرز ہوئے اور پھر دو ہزار پندرہ میں کم ہو کر تین اعشاریہ تین ملین ڈالرز رہ گئے۔ تاہم عمران خان کے اقتدار پہ براجمان ہونے کے بعد عطیات کا اتار چڑھاومستحکم ہو گیا اور لگاتار اضافہ کے ساتھ دو ہزار بیس میں نو اعشاریہ تین ملین ڈالرز ہو گیا۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ (جو کہ امریکہ میں عمران خان کینسر اپیل کے نام سے رجسٹرڈ ہے) کا فارم نائن نائن زیرو انکم ٹیکس گوشوارے سال دو ہزار انیس دو ہزار بیس اور دو ہزار اکیس آئی آر ایس کی ویب سائٹ پہ میسر نہیں تھا۔ فیکٹ فوکس نے گوشواروں پر دیئے گئے رابطہ نمبر کے ذریعے کیتھی نامی خاتون سے بات کی تو اس نے پہلے یہ بتایا کہ گوشوارے جمع کروائے گئے ہیں اور پھر ان تین سالوں کے فارم نائن نائن زیرو فراہم کر دیئے۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے لیئے برطانیہ سے جمع ہونے والے عطیات اضافے کے ساتھ سال دو ہزار اٹھارہ میں چھ اعشاریہ سات ملین پاونڈ، سال دو ہزارانیس میں آٹھ اعشاریہ ایک ملین پاونڈ اور سال دو ہزار بیس میں بارہ اعشاریہ تین ملین پاونڈ کو پہنچ گئے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سال دو ہزار بارہ میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے عطیات دو اعشاریہ آٹھ ملین پاونڈ تھے جب کہ ان میں گزشتہ سال یعنی کہ دو ہزار گیارہ کے مقابلے میں صرف نصف ملین کا اضافہ ہوا۔

الیکشن کمیشن کو دی جانے والی فہرست میں عطیات دینے والوں میں سے ایک نام ممتاز احمد مسلیم کا ہےموصوف کو حال ہی میں اکتوبر دو ہزار اکیس میں مشہور سیاحی مقام نتھیاگلی میں کئی ملین ڈالرز کا ایک پر تعیش ہوٹل بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس حقیقت سے ابھی چند روز قبل “دی نیوز” نے پردہ اٹھایا۔ “دی نیوز” کی رپورٹ کے مطابق موصوف نے پی تی آئی کو چوبیس ہزار نو سونواسی ڈالرز بطور تحفہ دیئے۔ مزید براں وفاقی تحقیققاتی ادارے کی تحقیقات کے مطابق ممتاز احمد سلیم کا نام ان پاکستانیوں کی فہرست میں بھی ہے جن کی متحدہ عرب امارات میں بھی جائیدادیں ہے۔ جب کہ آئی سی آئی جے کی طرف سے کیئے جانے والے حالیہ انکشافات “پنڈورا پیپرز” کے مطابق ممتاز احمد سلیم دریشک سیکورٹی سولوشنز آئی این سی نام اکی ٓفشور کمپنی کے بھی مالک ہیں۔

شوکت کانم میموریل ٹرسٹ کے علاوہ عمران خان کے دیگر خیراتی اداروں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال بھی سنجیدہ نوعیت کے معاملات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک خیراتی ادارہ نمل کالج سٹی سے نام سے ہے۔ یہ ادارہ برطانیہ میں “نمل کالج ” کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور امریکہ میں” فرینڈز آف نمل آئی این سی” کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔

عمران خان کے نمل کالج پروجیکٹ نے برطانیہ میں ٹیکس اتھارٹیز کو سال دو ہزار اٹھارہ سے ٹیکس گوشوارے نہیں جمع کروائے گئے۔ دو ہزار اٹھاہ وہی سال ہے جب خان صاحب وزیراعظم بنے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جو برطانیہ میں “عمران خان کینسر اپیل” کے نام سے کام کرتا ہے اور اسے مینیجرز اور اکائونٹنٹس کی وہی ٹیم چلاتی ہے، نے اپنے تمام ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں۔

برطانوی چیریٹیز کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ بات نہ صرف صاف طور پر لکھی گئی ہے بلکہ سرخ نشان سے یاد دہانی بھی کرائی ہوئی ہے کہ نمل کالج نے اپنے حساب کتاب کی تفصیلات آٹھ سو سات دنوں کی تاخیر کے باوجود جمع نہیں کرائی گئیں

تفصیلات کے حصول کے لیئے اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت فیکٹ فوکس کی جانب سے برطانوی چئیریٹیز کمیشن کو تحریری درخواست دی گئی۔ کمیشن نے گیارہ جنوری دو ہزار بائیس کو صرف ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کی تحریرا تصدیق کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نمل کالج کی کچھ ایسی تفصیلات بھی فراہم کیں جو ویب سائٹ پر موجود نہیں ہیں۔

دوسری طرف امریکہ میں “فرینڈز آف نمل” کو وفاقی ٹیکس سے حاصل شدہ استثنٰی خودکار سسٹم کے تحت پندرہ مئی دو ہزار انیس کو ختم کر دیا گیا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ مسلسل تین سال تک ادارے نے ٹیکس گوشوارے اور فارم نائن نائن زیروجمع نہیں کرائے تھے۔ ٹیکس استثنٰی کی بحالی کے لیئے ان گوشواروں اور فارم نائن نائن زیرہ سیریزکا جمع کرانا ضروری ہے۔ تاہم امریکی ٹیکس اتھارٹی آئی آر ایس کی ویب سائٹ پہ نمل کالج کے دو ہزار اٹھارہ اور اس کے بعد کے سالوں کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ گوشوارں پہ دیئے گئے رابطہ نمبرز پہ کی گئی کالز اور پیغامات کا کوئی جواب موصول نہیں ہوتا۔

اس عرصے میں سال دو ہزار اٹھارہ میں نمل کو ایک سو پچاسی ملین روپوں کے عطیات وصول ہوئے جو دو ہزار بیس میں برق رفتاری سے ایک اعشاریہ چار ارب روپے تک پہنچ گئے۔ (تقریبا سات سو فیصد کا اضافہ ہوا)۔

اب آتے ہیں عمران خان فاونڈیشن کی طرف۔ اس ادارے کو حاصل شدہ ٹیکس استثنٰی پندرہ مئی دو ہزار اکیس کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ فارم نائن نائن زیرو سیریزمسلسل تین سال گزرنے کے باوجود جمع نہیں کرایا گیا۔

یہ صورتحال معاملات کو مشکوک بناتی ہے۔ عمران خان فاونڈیشن کے پرانے گوشواروں پہ دیئے گئے رابطہ نمرز پر کی گئی کالز اور میسجز کا کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا۔ عمران خان فاونڈیشن کے پاکستان میں موجود دفتر کے ایک نمائندہ نے فیکٹ فوکس کو بتایا کہ عمران خان فاونڈیشن نے بطور ادارہ کام کرنا بند کر دیا ہے۔ تاہم یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ عمران خان فاونڈیشن پاکستان میں عطیات وصول کر رہا ہے اور متعلقہ ٹیکس حکام کو اپنے گوشوارے بھی جمع کروا رہا ہے۔ پاکستان سے ان خیراتی اداروں کے حاصل کردہ ٹیکس گوشواروں سے پتا چلتا ہیکہ عمران خان خان فاونڈیشن نے سال دو ہزار اٹھارہ میں ایک سو چھبیس ملین روپے، دو ہزار انیس میں تین سو چودہ ملین روپے اور دو ہزار بیس میں تیرہ ملین روپے کے عطیات اکٹھے کیئے۔ عمران خان فاونڈیشن کی جانب سے پاکستان میں جمع کیئے گئے گوشواروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سال دو ہزار بیس میں ادارے کے انتظام و انصرام پہ ایک ارب روپے خرچ ہوئے۔ یہ دستاویزی ثبوت عمران خان فاونڈیشن کے پاکستان میں موجود نمائندے کے دیئے گئے بیان کہ عمران خان فاونڈیشن نے بطور ادارہ کام کرنا بند کر دیا ہے کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں

عمران خان کے دیگر اداروں کی طرح عمران خان فاونڈیشن نے اپنے نام میں خان کے نام کے ٹیگ کا خاطرخواہ فائدہ اٹھایا ہے جس کو مزید جِلا عمران خان کی بے پناہ مقبولیت اور ان کے “قابلِ بھروسہ” ہونے کے اس تاثر نے بخشی جو ان کے چاہنے والوں میں پایا جاتا ہے، خاص کر کے ان کے ان مداحوں میں جو پاکستان کی اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ لیکن جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں ان کے نت نئے آنے والے ٹیکنوکریٹ مشیروں نے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کواپنی بدانتظامی سے تباہی کے دھانے پہ پہنچا دیا ہے۔

عمران خان فاونڈیشن کی ویب سائٹ غیر فعال ہےتاہم اس کے فیس بک پیج پر بائیس جنوری دو ہزار بیس کو پوسٹ کی گئی معلومات کے مطابق عمران خان فاونڈیشن نے اخوت فاونڈیشن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پہ دستخط کیئے ہیں۔ اخوت فاونڈیشن لوگوں کو آسان قرضہ جات فراہم کرتی ہے اور اب تک ایک سو تیس ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ اس بات سے بھی پاکستان میں عمران خان فاونڈیشن کے دفتر میں موجود نمائندے کی اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ ادارہ بند ہو چکا ہے۔ تاہم مقامی یا بین الاقوامی میڈیا میں کہیں بھی یہ خبر سامنے نہیں آئی کہ عمران خان فاونڈیشن کو برطانیہ اور امریکہ میں حاصل شدہ ٹیکس استثنٰی واپس لے لیا گیا ہے۔ ان ممالک میں یہ ادارہ “عمران کان ریلیف فنڈ” کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور پندرہ جنوری دو ہزار بائیس تک نو سو تیس دنوں کی تاخیر سے جمع کیئے گئے چندے اور خیرات کی تفصیل دینے سے قاصر ہے۔ دو ہزار اکیس تک عمران خان فاونڈیشن اور نمل کالج، دونوں کو ٹیکس استثنٰی حاصل تھا۔

امریکی ٹیکس اتھارٹی آئی آر ایس نے لازم کیا ہوا ہے کہ ٹیکس سے مستثنٰی ادارے تمام مالی دستاویزات بشمول ٹیکس گوشواروں کی تشہیر کرنے کے پابند ہیں تاکہ لوگ ان کا جائزہ لے سکیں اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان قانونی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے خیراتی اداروں کے لیئے لازم ہے کہ وہ اپنے آخری تین سالوں کے فارم نائن نائن زیرو یا فارم نائن نائن زیرو پی ایف، سالانہ انکم ٹیکس گوشوارے، فارم ون زیرو ٹو تھری اور دیگر ضروری دستاویزات کے ہمراہ ٹیکس استثنٰی کے حصول کے لیئے درخواست جمع کروائیں۔ آئی آر ایس کے ان قواعد میں سے ایک قاعدہ فائیو زیرو ون (سی) (تھری) کے ماتحت جو فوائد ھاصل ہوتے ہیں ان میں سرمایہ، کم آمدنی کی حامل سرکاری خدمات پہ ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ دیگر فوائد میں وفاقی ٹیکس سے چھوٹ اور ان عطیات کی وصولی کی اجازت جن پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا قاعدہ کے تحت حاصل ہونے والے تمام فوائد کی قیمت امریکی شہری اپنے ٹیکس سے ادا کرتے ہیں۔ خیراتی اداروں کے لیئے چندے کے حصول کو آسان بنانے کےلیئے امریکیوں شہریوں کا یہ کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیئے یہ امر قابلِ تشویش ہے کہ عمران خان فاونڈیشن اور نمل کالج نے گزشتہ تین سالوں سے اپنے ٹیکس کے معاملات لوگوں سے اوجھل رکھے۔ اسی طرح برطانیہ میں نمل کالج اور عمران خان ریلیف فنڈ نے گزشتہ دو سے ڈھائی سالوں کے دوران خیرات کی مد میں جمع ہونے والی رقوم کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ ان اداروں نے جان بوجھ کر یہ معلومات منظرِ عام پر نہیں آنے دیں تاکہ بےقاعدگیوں کو نظروں سے اوجھل کیا جا سکے کیونکہ رپورٹس کے مطالعہ سے یہ بات واضع ہو سکتی ہے کہ لوگوں کے عطیات کہاں خرچ ہوئے۔ مزید برآں یہ حقیقت بھی آشکار ہو سکتی ہے کہ خیرات اداروں کے نام پہ اکٹھا کیا گیا پیسہ عمران خان کی سیاسی سر گرمیوں پہ خرچ ہوا۔ جس کا ثبوت الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تفصیلات سے ملتا ہے کیونکہ عطیہ دینے والے کچھ افراد کے نام الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں درج ہیں۔

عمران خان کے خیراتی اداروں میں سے آخری قابلِ ذکر ادارہ جس پر فیکٹ فوکس نے کام کیا ہے وہ ہے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ۔ یہ ادارہ دو ہزار انیس میں اسلام آباد (پاکستان) مین رجسٹر ہوا۔ اس کے قیام کا مقصد وزیراعظم کی ان خواہشات کی تکمیل ہے کہ روحانیت کی تعلیم جدید تعلیمی انداز میں دی جا سکے۔ تاکہ لوگوں کو مغربی کلچر سے بچایا جا سکے۔ اس کلچر نے نوجوانوں کے دماغوں کو گھیرا ہوا ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی باقاعدہ رجسٹریشن دسمبر دو ہزار انیس میں ہوئی تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹی عمارت اس وقت تک مکمل ہو چکی تھی۔ یاد رہے کہ یہ یونیورسٹی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ستر میل جنوب کی طرف واقع شہر جہلم میں ہے۔

دستاویزات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس وقت تک یونیورسٹی کو ایک ارب روپے کے عطیات وصول ہو چکے تھے۔ ایف بی آر کے نمائندہ کے مطابق اس وقت تک یونیورسٹی کو ٹیکس استثنٰی نہیں دیا گیا تھا۔ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے لیئے وصول شدہ فنڈنگ کے متعلق پاکستان میں اس وقت تک کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

You News is Pakistan based weekly magazine.